دینی محقّقین کی پہلی کانفرنس ( دینی تحقیقات اور اسمیں رکاوٹیں اور ضروری چیزیں) کے عنوان سے آذر کے مہینہ کی سترہ تاریخ کو 'ہفتہ پژوہش' کی مناسبت سے منعقد کی گئی جسمیں کثیر تعداد میں علماء و دانشوروں، دینی و غیر دینی، مدارس و یونیورسٹییز کے اساتذہ و محقّقین نے شرکت فرمایی۔
یہ کانفرنس دینی محقّقین کے سیکریٹری کی بلند ہمّتی اور سوبہ قم کے دفتر' فرہنگ و ارشاد' کی مدد سےقم یونیورسٹی کے شیخ مفید ہال میں منعقد کی گئی۔
اس کانفرنسمیں سب سے پہلے ملک کے دینی محقّقین کی مجلس مشورت کے سیکریٹری محمد جواد صاحبی نے کانفرنسکے اجرایی طور طریقے کی توصیف کرتے ہوۓ ضمنا يہ بھی عرض کیا: کہ کانفرنسکے دفتر سیکریٹری نے قلّت وقت کے با وجود ـ چونکہ ھفتہ وحدت آنے والا تھا لہذا انہوں نے ایک علمی کمیٹی کو تشکیل دیااور ہر چیز کا ٹايم ٹیبل بنایا، دوسروں سے ارتباط برقرار کۓ، اور اس کے متعلق نمایشگاہ اور تبلیغی امور انجام دئے اور مدارس و یونیورسٹییزکےاساتذہ کے ساتھ جلسات منعقد کئے تاکہکانفرنس کو بہتر بنایا جا سکے اور کانفرنس میں دۓ جانے والے موضوعات کے متعلق بات چیت کی جا سکے اور اس بات چیت کے نتیجہ میں کانفرنس کے موضوعات کو تین محور پر تقسیم کیا گیا، جسمیں موضوعات کا ایک محور صرف یہ تھا کہ دین میں کن چیزوں پر تحقیق لازم اور ضروری ہے۔ اور ان موضوعات کا دوسرا محور یہ تھا کہ دینی تحقیق کی مشکلات کیا ہیں؟۔ اور کانفرنس کے موضوعات کا تیسرا محور یہ تھا کہ دینی تحقیقات کی نقصانات کیا ہیں؟ کہ آج ان موضوعات پر بحث اور تبادلہ خیال کیا جائے گا ان کے بعد ' فرہنگ و ارشاد اسلامی' کے نائب وزیر جناب احمد مسجد جامعی نےوزارت ' فرہنگ و ارشاد اسلامی' کی دینی تحقیقات کی سیاست کے متعلق بیان کیا اور فرمایا کہ اگر ہم اسطرح کی کانفرنس برپا کریں تو یقینا ہملوگ ان کانفرنسوں کے نتیجے میں ایک ایسے تحقیقی مرکز تک پہونچ جائیں گے جس کے مختلف شعبوں میں ماہر افراد موجود ہوں گے جن میں سے کچھ لوگ ایسے موجود ہوں گے جو نظریات کے موجد ہوں گے۔ یعنی جنکا کام صرفنظریوں کو ایجاد کرنا ہوگا۔ اور کچھ لوگ سیاست کے بخش میں موجود ہوں جن کا کام صرف یہ ہو کہ سیاست کس طرح کی ہونی چاہیۓ اور کچھ لوگ مسايل کی علّت کے پتہ لگانے میں ماہرہوں۔ اور یہ تمام افراد کسی جگہ پر بیٹھ کر جرح و بحث و تبادلہ خیال کریں۔ اگر ایسا کام انجام دیا جائے تو یقینا یہ افراد اس بات پر قادر ہوں گے کہ مسايل کی حقیقت کو دریافت کرکے جدید ترین شرايط میں دین کی حقّانیت سے دفاع کے لۓ جستجو کریں۔
اس سیمینار میں آیۃاللّہ جوادی آملی مد ظلّہ عالی نے بھی جوزۂ علمیہ اور تحقیق دینی کے عنوان پر تقریر کرتے ہوۓ کہا کہ: وارثان انبیاء(ع) کا عہدہ،تحقیق کی ضرورت و رسالت کا طلبگار ہے یعنی اگر کوئی عالم، اپنے بزرگوں کے آثار کی حفاظت نہ کرے اور گذشتہ کو آیندہ کے لۓ پایہ و بنیاد قرار نہ دے وہ وارث انبیاء نہی ہے۔
کانفرنس کے بعد کا ٹايم ٹیبل پریسکانفرنس کا تھا جسمیں دینی تحقیق کے نقصانات کے موضوع پر گفتگو ہوئی اس پریسکانفرنس میں حوزوں و یونیورسٹیز کے اساتذہ نے شرکت کی اور صاحب نظر افراد نے اپنے اپنے نظریات کا اظہار کیا اور دینی تحقیق کے مختلف موضوعات کو زیر بحث قرار دیا اوران کے ساتھ ساتھ انکے راہ حل کو بھی بیان کیا گیا۔
( پہلی مجلس)
پہلی کانفرنس میں حجّت الاسلام صادقی رشاد نے(محتوا اور متنی نقصانات) کے عنوان پر سخنرانی کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ڈاکٹر مہدی گلشنی نے (اس زمانے میں متعارف دین کی کیفیت اوراس زمینہ میں حوزہ علمیہ کی افادیت)) کے موضوع پر گفتگو کی اور حجّت الاسلام والمسلمین شانہ چی نے دینی محقّقین کو نصیحت وصیّت کرتے ہوے تبادلہ خیال کیا۔
ڈاکٹر مہدی گلشنی نے اپنی سخنرانی کے ایک بند میں، اس زمانے میں دین کی کیفیت کو بیان کرتے ہوۓ کہا: اس زمانے میں دین کی کیفیت ماضی کے اعتبار سے بہت زیادہ بدل چکی ہے اور روز کتابوں اور مجلّوں کے اعداد و شمارش میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہےاسکے بعد انہوں نے چند دانشمندوں کے نظریوں کے اعتبار سے، ان کے قول کو نقل وتشریح کرتے ہوۓ بالخصوص اس زمانے میں علم کی کیفیت اور جنبہ پوزیٹیوسٹی کی کمی کو بیان کرتے ہوۓ کہا:
پوزیٹیوسٹی کی پھیلی ہويی امواج، بے توجہی کی وجہ ہے۔ اور اس وقت بہت کم مباحث علمی و دینی میں جو باہر مطرح ہوتے ہوں اور انکو ان علمی مراکز اور مجلّوں میں جگہ دی جاتی ہو، میری نظر میں اس مقام پر حوزۂ علمیہ کو چاہۓ کہ وہ اپنی شخصیت اورحالت، علم کی با نسبت روشن کرے۔
حجّت الاسلام شانہ چی نی بھی اپنی تقریر میں دینی تحقیق کی آفتوں کو مندرجہ ذیل موارد میں بیان کیا:
1- خود محوری اور انحمن و گروہ کے ساتھ کام کرنے سے راہ فرار اختیار کرنا۔
2- فعالیت علمی میں اطلاع رسانی کا ضعیف ہونا۔
3- رائ و فکر و نظر کا تعصب سے مملو ہونا۔
4- انجام شدہ کاموں کو دوبارہ انجام دینا۔
آپ نے تقریر کے اختتام پر کہا: اصل مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے کاموں میں اخلاص سے کام لیں۔اور اگر ہم اپنے کاموں میں خودنمايی و خودخواہی کو جگہ دینگے تو یقینا ہم قہری طور پر دینی تحقیق کی بابت معطل ہوکر رہ جائیں گے۔ اور ہمارا تمام کام، کوڑا کرکٹ ہوکر رہ جائیگا۔
حجّت الاسلام والمسلمین علی اکبر صادقی رشاد نے اپنی گفتگو میں ( دینی تحقیق کے نقصانات) کیبحث کو طول دیتے ہوۓ، اس بحث کو اساسی ترین بحث قرار دیا اور کہا: سبسے بڑی آفتیں دینی تحقیق میں وہ آفتیں ہیں جو محتوا، روش و منطق تحقیق میں بیان کی گئی ہیں اور ان نقصانات کو مندرجہ ذیل کے پانچ طبقوں میں ذکر کیا جا سکتا ہے۔
1- وہ نقصانات جنکو روش کے باب میں بیان کیا جاتا ہے۔
2- وہ نقصانات جو تحقیقات دینی کے محتوا کی طرف برگشت کرتے ہیں۔
3- بعض آسیب و نقصانات وہ ہیں حو خود محقّقین اور تحقیقی اداروں کی طرف پلٹتے ہیں۔
4- اور کچھ وہ نقصانات ہیں جن میں دینی تحقیقات کی مشینیں ملوّس ہیں۔
5- کچھ وہ آسیب و نقصانات ہیں جو دینی تحقیقات کے مخاطبین سے ارتباط برقرار کرنے سے حاصل ہوتے ہیں۔
دوسریکانفرنسمیں ڈاکٹر محسینیان نے پیشرفت و ترقّی اور تنزّلی کے معیار کے موضوع پر تقریر کی اور استاد مصطفی مکّیان نے حوزۂ دین میں ضرورت تحقیق کے عنوان پر اپنے نظریوں کو بیان کیا۔
ڈاکٹر محسینیان نے اپنی تقریر میں تین لفظوں کی تشریح کی اور کہا: جو کچھ تصوّر کیا حاتا ہے اسکے خلاف ہے لفظ پروپیگنڈا(Propaganda) واقعا تبلیغ کے معنی میں نہیں ہے اور ابھی تک کوئی فارسی لفظ جو اسکے دقیقا صحیح معنی بیان کر سکے یا اس کی جگہ لے سکے وضع نہی گیا ہے'آریاپنور' نے اس لفظ کو آوازہ گری کے مساوی جانا ہے، ہم جانتے ہیں کہ یہ لفظ پروپیگنڈا، حدودا 1650 ء میں پہلی بار استعمال ہوا اور عسائیوں نےجنگ صلیبی کے بعد پوری کوشش کی کہ اسکو فیزیکی عمل کے جاگزین کریں۔ لیکن آج عسائیت اسکے بجاۓ نفظ پرسویشن(Persuasion) کا استعمال کرتی ہے اور اس وقت بازار میں ثقافت کی کتابوں میں اصلا لفظ پروپیگنڈا دیکھا نہی جا سکتا۔ اب جو کچھ بھی ہے کتاب پرسویشن اور اقناع کتابیں ہیں۔ آوازہ گری (پروپیگنڈا) اور لفظ اقناع آپس میں بہت زیادہ فرق کے حامل ہیں ان میں مہمترین فرق یہ ہے کہ آوازہ گری اور پروپیگنڈا ایک جیسے ہیں اور اوپر سے لیکر نیچے تک باہم متضاد نہی ہیں جبکہ اقناع (پرسویشن) میں دونوں طرف سے کام ہے، مخاطب کو چاہۓ کہ وہ قناعت کی منزل میں اتر جاۓ اور اس میں تحوّل برپا کرے اور جو کچھ بھی اتّفاق رونما ہو اسکو قبول کرے۔
انہوں نے اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوۓ کہا: میرے خیال میں محقّق نہ ہی پروپیگنڈا ہے اور نہ ہی پرسویشن۔ اگر ہم اپنے آپ کو محقّق کہلاتے ہیں تو ہمیں حتما تحقیق کی جو تعریف کی گئی ہے اسکا پائبند ہونا چاہۓ، تحقیق کی تعریف کو جو عناصر مل کر کامل کرتے ہیں ان عناصر میں سے ایک عنصر یہ ہے جو تعریف کو مکمّل کرتا ہے۔کہ جس کے نقطۂ آغاز وانحام کی کوئی حد نہی ہے۔
دوسرا نکتہ قابل ذکریہ ہے کہ تحقیق کے عادات و اطوار میں ایک عادت یہ ہے کہ تحقیق منظّم طور پر انجام پاۓ۔
اور تیسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ حقیقت کو کشف کرنے کی عادت ڈالی جائے جو دوسروں کے علم میں اضافہ کا باعث ہو نہ کہ خود محقّق کے علم میں اضافہ کا باعث ہو۔
افسوس ہم اس بات کو قبول نہی کرتے کہ ایک گروہ پوزیٹیویسٹ ہو اور ایک گروہ تفھمی کا۔ دنیا کہہ رہی ہے کہ یہ سب ایک ہی صندوق کے اوزار ہیں ان میں سے ہر ایک اوزار ایک پیچ سے مخصوص ہے پس ہمیں بھی دین سے متعلق تمام اوزار سے آگاھی ہونا چاہۓ اور ان پر مسلط ہونا چاہۓ۔
تیسرا جلسہ:
تیسرا جلسہ(دینی تحقیق میں مشکلات اور اسمیں رکاوٹیں اور تحقیق میں ضروری چیزیں) کے عنوان سے برگزار کیا گیا جس میں حجّت الاسلام مہدی مہریزی، قاضی زادہ اور ڈاکٹر ذکاوتی نے شرکت فرمائی۔
حجّت الاسلام مہدی مہریزی نے اپنی تقریر کا ایک حصّہ تحقیق کی مشکلات اور رکاوٹوں سے مخصوص کیا اور ان مشکلات اور موانع کو دو حصّوں میں تقسیم کیا:
1- مشکلات داخلی
2- مشکلات خارجی
اور مشکلات خارجی کو دینی تحقیقات کے زمینہ میں مندرجہ ذیل موارد میں بیان کیا:
تحقیق کے لۓ منابع کا موجود نہ ہونا، جدید منابع تک رسائی نہ ہونا، غالبا اکثر محقّقین کا مسافرت پر نہ جانا۔
اور تحقیقات دینی کی داخلی مشکلات کو مندرجہ ذیل موارد میں ذکر کیا ہے:
حوزہ و مراکز کا تحقیقی کاموں کے لۓ اہتمام نہ کرنا، حوزہ میں تحقیق کو زیادہ اہمیت نہ دینا، اور بہت سی مشکل و موانع جو حوزہ پر حاکم ہوتی ہیں اور وہ عقیدہ جو کلّ تحقیق پر حاکم ہوتا ہے۔
اسکے بعد ڈاکٹر ذاکاوتی نے تحقیق و تبلیغ کے ما بین فرق کو بیان کرتے ہوۓ کہا: تبلیغ کے معنی' تعارف' کرانا ہیں جو تحقیق سے متفاوت ہے۔ تحقیقی کام میں تو فرض ہی اس بات پر ہے کہ محقّق ایک نکتہ سے اپنے سفرِ تحقیق کا آغاز کرتا ہے اور اسکو خود بھی معلوم نہی ہوتا کہ اس سفر کا اختتام کہاں ہوگا۔ لیکن مبلّغ کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مخاطب کو کہاں لے جانا چاہتا ہے۔ اور اسی طرح سے تبلیغ اور تحقیق دونوں کے لہجوں میں بھی کافی فرق ہے لہذا آج کی تحقیق مبلّغ کی بنیاد تبلیغ ہے۔
آپ نے اپنے کلام کے آخر میں تجدّد گرائیاور تجدّد گریزی دونوں کو تحقیق میں آنے والی آفتوں میں شمار کیا اور یہ بیان فرمایا: ان چیزوں میں سے ایک چیز جس کو انگلس کے 'انگائفن' نے بھی بیان کیا ہے وہ ذہنی بت ہیں کیونکہ ہم لوگوں کی ذہنیت ہی ایسی ہے کہ ہم اپنے ذہنی بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور ہہ ہماری عادتیں تحقیقی امور کی مشکلات میں سے ہیں اور یہ آفت محقّق اور مخاطب دونوں کے ہی لۓ ہے۔
جلسے کے اختتام پر حجّت الاسلام والمسلمین قاضی زادہ نے محقّق پروری کی مشکلات کے متعلق بیان کیا: حوزہ میں محقّق پروری کا میدان بہت زیادہ محدود ہے اور محقّقین کی مشکلات میں سب سے اہم مشکل معیشتی امور کی ہے۔
اس کانفرنسمیں کی گئ تقاریروں میں سے چنندہ تقاریروں کو ایک کتاب کی شکل دی گئ ہے جس کا نام ہی( دینی تحقیق میں موانع و محدودیت اور اسکی ضرورتیں) ہے
منبع : دبیرخانه شورای دین پژوهان کشور