دینی محققین کی تیسری کانفرنس کا عنوان تھا (ایرانی معاشرے میں مزہبی نسبتیں اور ایرانی ثقافت) یہ کانفرنس شمسی مہینہ کے اعتبار سے1380میں بھمن کے مہینہ میں منعقد کی گئی۔ جس میں ملک بھر سے کثیر تعداد میں حوزہ و یونیورسٹیز سے تشریف لاے، محققین و صاحب نظران موجود تھے یہ کانفرنس ملک کے دینی محققین کے سکریٹری کے تعاون سے حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای مد ظلہ العالی کے کتب خانہ کے غدیر نامی حال میں منعقد ہوئی۔
کانفرنس کی ابتداء میں قرآن مجید کی تلاوت کی گئی اسکے بعد جمہوری اسلامی ایران کا ترانہ پڑھا گیا ترانہ کے بعد حاجی حسین باقری نے اختر تابناک، امامت ولایت کے آسمان، یعنی امامت کی آٹھوی کڑی حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی کے عنوان سے قصیدہ خوانی کی۔
انکے بعد کانفرنس کے سکریٹری محمد جواد صاحبی نے اپنی تقریر میں کانفرنس کے ہدف کو بیان کیا انہو نے بتایا کہ اس کانفرس کے برپا کرنے کا اصلی مقصد یہ ہے کہ دینی محققین کے درمیان روابط اور انضمام کو برقرار کیا جاے اور مخاطبین تک یہ پیغام پہونچا دیا جاے۔
آپ نے مزید فرمایا: کہ اس سے پہلے بھی دو کانفرنس منعقد ہو چکی ہیں جن میں سے پہلی کانفرنس کا موضوع یہ تھا(دینی تحقیق کی ضرورتیں اور اس میں موانع و مشکلات ) یہ کانفرنس 1377 میں منعقد کی گئی۔ اور گزشتہ سال بھی ایک کانفرنس (جدید اوزار اور جدید شبہات) کے موضوع کے تحت منعقد کی گئی۔ یہ سب ان کانفرنس اور جلسات کی برکات ہیں کے بہت سے جدید ادارہ وجود میں آے جن کا کام ہی صرف یہ ہے کہ وہ سوالات، اشکلات، اور انکی ضرورتوں کے متعلق جانچ پڑتال کریں۔ انکی پوری کی پوری سعی و تلاش کی توجہ صرف اس بات پر مرکوز ہے کہ وہ دینی تحقیقات کو بہتر سے بہتر بنا سکیں۔
دینی محققین کی کونسل کے سکریٹری نے مزید فرمایا: تاریخی لحاظ سے ہمارا ملک دو بہت اہم ثقافتوں کے رو در رو رہا ہے ان میں سے ایک ثقافت عرب کی اسلامی ثقافت ہے اور دوسری ثقافت، غربی ثقافت ہے۔ لیکن عرب کی اسلامی ثقافت اس لیے ایرانی ثقافت سے مانوس ہے چونکہ وہ ایرانی ثقافت سے تعامل کے نتیجہ میں وجود میں آئی ہے لہذاممکن ہے اس کو ایران کیثقافت اسلامی کے نام سے یاد کیا جاسکے۔
انہوں نے مزید متنبہ کیا کہ: ایک طرف تو یہ کہ ایرانی ثقافت کو کئی سو سال گزر چکے ہیں اس ملک میں مقتدرانہ طور پر راج کرتے ہوے اور دوسری جانب یہ کہ آخیر کے دوسو سالوں سے غربی ثقافت سے برسرپیکار ہے اور یہی وجہ ہے کہ غربی ثقافت ہمارے قومی تشخص کے اقدار اور ایمان کو مسلسل چیلنج کرتی رہی ہے۔اسی وجہ سے دینی محققین نے اس تیسری کانفرنس کا انعقاد کیا ہے تاکہ اس طرح کی تمام مشکلات اور معضلات کو حل کیا جا سکے اور انکے صحیح اور دقیق جوابات عنایت کیے جاسکیں۔
کانفرنس کے سگریٹری نے تیسری کانفرنس میں دریافت شدہ مقلات کے متعلق توضیح دیتے ہوے کہا کہ: 70 علمی اثر اور مقالات اس کانفرنس میں موصول ہوے ہیں۔ جن میں سے38 علمی مقالوں کو ایک کتاب کی شکل میں چاپ کیا گیا ہے اور اس کتاب کا عنوان ہے: (ایرانی معاشرے میں دین اور ثقافت کی مناسبتیں) یہ کتاب دو جلد میں چاپ کی گئی ہے۔ اس کتاب کے بعض علمی مقالات حضار محترم کے سامنے بھی قرائت کئے جائیں گے۔
اس کانفرنس کے دوسرے مقرر حجۃ الاسلام و المسلمین ھادوی تھرانی تھے انہوں نے اپنی تقریر میں ایک مقالہ کی قرائت کی، جس کا عنوان تھا: (تعقل وحیانی ثمرہ تعامل دو فرہنگ شیعی و ایرانی) یعنی وحیانی تعقل، شیعہ اور ایرانی ثقافت کے درمیان بات چیت کا نتیجہ۔ انہوں نےاپنی تقریر میں بیان کیا کہ ایک افراطی عقیدہ عقل گرا پایا جاتا ہے اور وہ لوگ تمام حقائق کو عقل کے زریعہ درک کرنے کی بیکار سعی کرتے ہیں اور ایک اور دوسرا تفریطی عقیدہ پایا جاتا ہے ظا ہر گرا ان لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ کسی بھی چیز کو عقل کے زریعہ درک نہی کیا جا سکتا انکے یہاں عقل کی پوری طرح سے تعطیل ہے۔اور یہ لوگ فقط ظاہر پر اکتفا کرتے ہیں۔
کانفرنس کی انجمن علمی کےممبر نے مزید کہاکہ: یہ دونوں نظریہ تاریخ کے دامن میں بھی ثبت ہیں۔ اس دور میں بھی میں مسلمانوں کے درمیان اسلامی ثقافت سے متعلق بہت سے اشکلات پائے جاتے ہیں اور انہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کے تر تیب دینے میں ایرانیوں کیاہمیت کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا: اس زمانہ میں ایرانیوں کی شیعت کے متعلق افسانہ بیان کیے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کی ایرانیوں کی، شیعت کی طرف مائل ہونے کی اصل وجہ ایرانی ثقافت میں 'فرہ ایزدی' کا وجود ہے حتی انہونے اس مفہوم کو شیعوںمیں بھی منتشر کیا۔اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ: اس مفہوم کا انہوں نے خود سے تانا بانا بنا ہے۔
جناب ہادوی تہرانی نے مزید فرمایا کہ: ان لوگوں کا کہنا ہے کے شیعت کی پیدائش بھی اسی کی وجہ سے ہوئی ہے اور امامت کی بحث بھی یہیں سے وجود میں آئی ہے۔ در حلیکہ حقیقت میں ایسا نہی ہے اسلئے کہ اگر ایسا ہوتا تو ایرانیوں کو 'فرہ ایزدی' کو کسی ایرانی کے گھرانے میں پانا چاہیئے تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایرانیوں نے اسے ایک عربی گھرانے میں پایا ہے۔ پس کس طرح وہ ایرانی ہو سکتا ہے؟
انہوں نےبعد میں اسبات کا بھی اضافہ کیا کہ: ایرانیوں نے اپنی آزادی اور عقل گرایی کا تانہ بانہ اسلام میں بنا اور اسکو شیعت بنا دیا اور ایران کا اسلامی انقلاب بھی اسی شیعت کی اسلامی ثقافت کی تجلی ہے۔
انکے بعد کانفرنس میں ڈاکٹر احمد احمدی نے تقریرکی انہوں نے معضل نظریات کی طرف اشارہ کیا اور انکے بانجھ پڑ جانے کا بھی تزکرہ کیا اور کہا کہ: آج ہم اپنے ہاتھوں کی کمائی کا پھل کھارہے ہیںاورہمیں اس بات پر فخر ہے البتہ ہماری آخیر کے ۲۰ سال کی تمام سعی و تلاش اس بات پر تھی کہ ہم جوانوں کے ایک عظیم انبوہ کو اپنی طرف جلب کریں۔لیکن ہم اپنی اس کاوش میں ناکام رہے اور اس کا مثبت اثر تو کیا ہوتا بلکہ ہمیں اسکے منفی اثرات سے بھی دوچار ہونا پڑا ہے اور ہمارے پاس اسکی کوئی ایک توجیہ کے علاوہ کوئی دوسری توجیہ بھی نہی ہے۔ اور وہ توجیہ یہ ہے کہ دین کی مطلق حقیقت کو، اور انسان کی دین کےمتعلق قوت ادراک کی بساط کو باہم مخلوط کر دیا جائے۔ اگرچہ ہماری جو بھی بساط ہے وہ اسلام کی ہی مرہون منت ہے اور یہ ہمیشہ رشد کی محتاج ہے اور اگر صحیح طریقہ سے جانچ پڑتال کی جائے تو کسی طرح کا تباین حقیقت دین، اور علم کے درمیان نہی پایا جا سکتا۔
ملک کی یونیورسٹیز کی کونسل کے ممبر نےکہا کی: ایک علمی نظریہ کے مطابق ثقافتی سماجیات ، انسانی ہستی کے مقابلہ میںماحولیات اور فطرت کے اعتبار سے ہمیشہ راہنمائی کا کردار ادا کرتا رہا ہے اور انسان ہدایت کا یہ رویہ انسان کو دوسرے موجودات سے ممتاز بنا دیتا ہے۔
اسی وجہ سے انسان موجودہ شرائط اور کیفیت سے راضی نہی ہوتا یہی وجہ ہے کہ انسان تغیر و تحول، ایجادت و نوآوری کے درپی میں رہتا ہے اور انسان کی یہی خصوصیت ثقافت کو جنم دیتی ہے اور جس وقت انسان پر رکود طاری ہوجائے تو ثقافت کے رکود کا زمانہ شروع ہوجاتا ہے اور ایک دوسرا نظریہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جو (ممٹیکس)(memetics) کے نام سے مشہور ہے اس نظریہ میں ثقافت فطرت کا ڈھانچہ ہے اسلئے کہ یہ فطرت کی باریک جز کی ایک متشکل ہے جسکا نام جین ہے اور یہی چیز ثقافت میں (میم) کے نام سے یاد کی جاتی ہے جس کے ذریعہ معاشرے کے ڈھانچہ کی تشکیل دی جاتی ہے۔
ڈاکٹر احمدی نے آخر میں متنبہ کیا: ثقافتی علوم کے ماہر، مذہب اور ثقافت کے منشاء کو تو مختلف امر شمار کرتے ہیں اور انکا عقیدہ یہ ہے کہدین مطلقا حقیقت رکھتا ہے اور یہ انسانی کاوشوں کا نتیجہ نہی ہے ہاں مگر تہذیب و تمدن اور ثقافت یہ انسان کی ایجاد کردہ ہیں مثلا شہید مطاہری، مرحوم شریعتی، مرحوم بازرگانی اور مرحوم شہید مفتح، ان لوگوں نے علم و دین کے ذریعہ تفہیم انسانی کی بساط کو وسعت بخشی۔ اور یہ لوگ اس کام میں کابیاب و کامران بھی تھے اور اس دور میں ان کا نہ ہونا دین و ثقافت کے درمیان ایک کاری رخنہ کا باعث ہوا ہے اور ہم معاشرے میں عملی اعتبار سے باہری ثقافت کے آلہ کار بن گئے ہیں۔
انکے بعد کچھ مصنفین نے اپنے اپنے مقالوں کو سامعین کے سامنےقرائت کیا۔ سب سےپہلے سید احمد حسینی کازرونی نے اپنے مقالہ کو پیش کیا جس کا عنوان یہ تھا (فارسی نظموں میں عاشورہ کیتعلیمات اور ثقافت).
انہوں نے فارسی ادب کی تعلیمات عاشورا کی خدمات کے متعلق تذکرہ کیا اور اس کی دیرینہ خدمات کے اوپر بہت زیادہ زور دیا۔ انہوں نےفارسی کی ان نظموں کی ایک فائل پیش کی جن میں امامت و ولایت کے چاہنے والوں کے صفات کو بیان کیاگیا تھا۔ اور عاشورہ حسینی کی تاثیر گزاری اور تاثیر پزیری فاوسی زبان کے شعراء کی نظموں کے شعروں سے باخوبی واضح ہے۔ چونکہ فارسی زبان کے شعراء کا امام حسین کی تحریک کو دوسری تحریکوں پر فوقیت اور اہمیت دینا انکو کاملا ممتاز بنا دیتا ہے۔
ڈاکٹر کارزانی نے، حکیم ناصر خسرو، قباد یانی، قوامی رازی، سنائی غزنوی، عطار نیشاپوری، سیف الدین فرغانی، جلال الدین محمد مولوی،خواجہ ناصر بخاری، خواجوی کرمانی،اوحدی مراغہ ای، سلمان ساوجی، شاہ داعی شیرازی، ابن حسام، عبدالرحمان جامی اور محتشم کاشانی کو ان شاعروں میں سے شمار کیا جنہوں نے عاشورا اور تحریک امام حسین علیہ السلام کے متعلق بے حد عمدہ اشعار کہے ہین ۔
انہوں نے عاشورا سے تعلق رکھنے والی فارسی نظموں کے متعلق کہا: فارسی زبان کے شعراء نے امام حسین علیہ السلام کو ہمیشہ حق اور حقیقت مانا ہے اور انہیں نیکی اور اچھائی کے ساتھ یاد کیا ہے اور امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت کے بیان کو ایران کے فارسی زبان کے شعراء نے صفوی حکومت سے آغاز کیا جیسا کہ فارسی اشعار سے بخوبی ظاہر ہے۔
امام حسین علیہ السلام کے مصائب کو نظمی صورت میں پڑھنے کا کام صفوی حکومت سے زیادی متجلی ہوا ہے یہاں تک کے اس دور میں امام حسین علیہ السلم کے مصائب کو بیان کرنے کا کام اپنی منزل معراج کو پہونچ گیا۔
ڈاکٹر کازرونی نے آخر میں فارسی شعراء کے چند اشعار کو بھی پڑھا۔
انکے بعد کانفرنس میں ایک مقالہ کا ترجمہ حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر حسام الد ین آشنا کے ذریعہ پیش کیا گیا اس مقالہ کا عنوان تھا: (ثقافتِ دینی سے دینِ ثقافتی تک) انہوں نے ثقافت کا ترجمہ بہت سی کی گئی تعریفوں کا نتیجہ جانا ہے جو دانشورں کی ایک جماعت کی طرف سے پیش کی گئی ہیں اور انہوں نے یہ بھی تاکید کی کہ : ثقافتی ترجمہ کا نظریہ ان تمام نظریوں سےاعم ہے جو ابھی تک پیش کئےگئے ہیں اور علم کو زندہ کرنے والا ہے اس لئے کہ یہ نظریہ طولی (عصری) اور عرضی (مکانی) دونوں زندگیوں کو شامل ہوجائے گا۔ یعنی زندہ کرنا زمان و مکان پر توجہ کرتے ہوے۔اور فرہنگی یا ثقافتی ترجمہ،مختلف ثقافتوںمیں اس کے ثقافتی وعصری مقتضیات کے مطابق مذہب کو بھی طلب کرتا ہے یعنی فرہنگی یا ثقافتی ترجمہ اس بات کا بھی مطالبہ کرتا ہے کہ ثقافت کے ساتھ ساتھ مذہب بھی موجود ہو۔
ڈاکٹر آشنا نے (شاہ ولی اللہ دہلوی)، (محمد ارکون)، (ڈاکٹر عبد الکریم سروش)، (محمد مجتہد شبستری) وغیرہ کو زمانہ حال اور ماضی کے مکتب ثقافت کے نام چین شخصیتوں کے عنوان سے یاد کیا اور مزید یہ فرمایا:کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہے کے اس کی بنیاد کا سب سے پہلا پتھر شاہ ولی اللہ دہلوی نے رکھا اور سنگ تمام ڈاکٹر سروش کے ہاتھوں رکھا گیا انہوں نے اس نظریہ کے مفاہیم کو شریعت کی تعریف سے اخذ کیا، انسان کی شناخت، مذہب، داستان اور زبان شناسی، دینی پلوراازم، اور تنقید کا معقول ہونا اور عادت کا جدا ہونا اور دینی تعلیماتکی ذاتی اور عرضی کا بنیادی اصول اور نظریہ ((قرحمہ ثقافتی دین)) کے لوازم کے عنوان سے جانا یے اور کہا کہ: ہماریکمونیٹی اس زمانہ میں انقطاع کے مسئلے سے دوچار ہے۔اور اس مسئلے کے مصداق مذہب کے مشکوک دانشور ہیں۔ اور یہ لوگ تا دیر یا جلدی مذہب کی روایت یا سنت سے جدا ہوجائیں گے اس لیئے کے یہ مسئلہ حکمت فقہی سے نشو نما پایا ہے اور اس مسئلے کو رفع کرنے کے لیئے((تلقی فرہنگ از دین )) یعنی دین کا ثقافت سے ملحق ہونے کے بجائے اسکا صحیح متبادل ہونا چاہیے اور اس مسئلے کا صحیح متبادل ہے((تلقی فقہ از دین))یعنی مذہب کی قانونی تشریع۔
ڈاکٹر آشنا نےکلام کے اختتام پر دین ثقافتی(فرہنگی) اور دین فقہی (تشریع قانون) کی توضیح دی۔ انہونے کہا کہ دینِ فقہی یا دینِ تشریع قانون یہ چاہتا ہے کہ دین کو معاشرے کی ثقافتی زندگی کا جانشین بنائے جبکہ دین ثقافتی یا فرہنگی، دین کو مستقیما ثقافتی سسٹم میں دیکھنا چاہتا ہے۔
دینِ فقہی ، تغیر و تحول اور نئی نئی ایجادات کو قبول نہی کرتا۔ لیکن ثقافتی دین، چونکہ ثقافتی معاشرے کی زندگی کا ایک حصہ شمار ہوتا ہے لہذا ثقافت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ متحول ہوجاتا ہے۔
دین فقہی محدودیت کو ایجاد کرتا ہےاور الزام آور ہے جبکہ دین ثقافتی فقط ثقافت میں ہی جاری ہوتا ہے معاشرے کی ثقافت کو اجگر کرتا ہے جس کہ نتیجہ میں علماء مراجع کرنے والوں کے احترام کا مرکز قرار پاتے ہیں اور ان کا یہ احترام انکی حکمیت کی بنیاد پر نہی ہے بلکہ ان کا احترام بہی اسی وجہ سے ہے کہ یہ بہی معاشرے کی ایک فرد ہیں۔
دین فقہی کی روشوں کی شناخت فقہی استدلالوں میں محدود ہے در حلیکہ دین ثقافتی کی روشوں کی شناخت عالمی معاشرے کی روش سے سازگار ہےبالخصوص ثقافتی شناخت سے مربوط ہے۔
اس کانفرنس مین ڈاکٹر یثربی نے بہی اپنے مقالہ کو قرائت کیا ان کے مقالہ کا عنوان تھا((مذہبی نظام میں ثقافت کا کردار)) انہوں نے سب سے پہلے مقالہ میں بیان کیا کہ کسی بھی معاشرے میں کسی بہی نظام کے کامیاب و کامران اور مستقر ہونے ہونے کے لیئے ثقافت کے کچھ خاص شرائط کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی نظام کی پیدائش اوراس کی کامیابی کے لیئے جب تک وہ خاص شرائط مہیا نہی ہوجاتے وہ نظام کامیاب نہی ہوسکتا اسی طرح بطور کلی ثقافت کے شرئط کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ دینی نظام کامیاب ہو سکے۔
ڈاکٹر یثربی نے ایران کے انقلاب کی کامیابی کی کچھ علتیں بیان کی ہیں یعنی وہ وجوہات جن کی بنیاد پر ایران کا اسلامی انقلاب کامیاب و کامران ہوا۔
سب سے پہلی بیس تو معاشرے کی ثقافت اور دیانتدار فکر تھی اور اس کےباوجود شیعہ علماء کا قوم و ملت کے درمیان زیادہ راسخ ہونا تھا جس کا کوئی رقیب نہی بن سکتا تھا اس کے علاوہ ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ہماری قوم کے لوگوں کا علماء کے ساتھ کسی طرح کا فکری اور عقیدتی ٹکراو بھی نہی تھا۔ ہمارے لوگوں نے پہلے کبھی بھی شیعہ علماء سے دہشت خیز یا انسانیت سے دور، کسی فعل کا مشاہدہ بھی نہی کیا تھا اور قرن آخر میں لوگوں کے تمام ارمان دین اسلام میں مدغم ہو گئے تھے۔
انہو نے بعثت، ایمان اور تقوے کی حمایتکو بنیادی اصول اور ضوابط میں شمار کیا کہ جو نظام دینی کے اندر موجود ہیں۔ انہونے مزید کہا: دینی نظام مین، قدرت کے بجاے صلاحیت، ہدایت کے بجاے تسلیم اور اطاعت اور بلوغ کی جگہ فرمان اور اسکی تبلیغ، یا مواصلات کی پختگی اور تعلقاتی نظام اغیرہ جیسی چیزوں نے نظام کی پشت پناہی کی ہے۔
ڈکٹر یثربی نے اس بات کی بھی تصریح کی کہ : میری نظر میں انقلاب کے بعد سے ہمارے معاشرے میں تین ہدف پائے جاتے ہیں۔
۱۔ سب سے پہلے ملک کو تمام جوانب سے محکم و مضبوط بنایا جاے۔
۲۔ معنوی اقدار کا تحظ اور انکی اہمیت اجاگر کی جاے۔
۳۔ بین الاقوامی اثرو رسوخ کی حمایت کرنا۔
انہونے آخیر میں کہا کہ: ثقافتی کردار کو نظام کی کامیابی یا ناکامی میں نظر انداز نہی کرنا چاہیے ۔ ہمارے معاشرے میں بھی کبھی کبھی اس نظام کو اس مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثلا معاشرے میں دینی مساوات کا نہ ہونا معنوی اقدار کو فراموش کردینا اور اپنی پوری توجہ کو قدرت کے حصول کے لیے مبذول کرنا یا انسان کا ان کاموں کا انجام دینا جیسے:غبنکرنا، رشوت کھانا، عصمت فروشی اور اسمگلنگ وغیرہ یہ تمام کے تمام صفات ایک معاشرے کے ضعیف و ناتوان ثقافت کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ لہذا دانشوروں اور ماہروں کی ایک کونسل کو تشکیل دیا جاے جو حکومت اور مخالفین کے جھگڑوں سے دور رہے اور وہ پوری طرح آذاد ہو اور مطالعات و مواصلات کو بھی ہدف دار بنایا جاے تاکہ اس اسمبلی کی آذادگی اور مطالعات و مواصلات کے ہدف دار ہونے کی بنیاد پر ثقافتی تبدیلی کی سمت میں ایک قدم ہو سکے۔
انکے بعد ڈاکٹر علی رضا شجاعی زند نے اپنے مقالہ کو پڑھا جس کا عنوان تھا ((معاشروں کے سیکولر ہونے کے نمونہ)) انہوں نے کہا: معاشروں کے سیکولر ہونے کی علتوں کو بیان کر نے کے لئے ضروری ہے کہ تمام مذاہب اور معاشروں کی مختلف مواقعوں کی اعتبار سے بطور کلی تفصیل موجود ہو اور ان کیصحیح طریقہ سے درجہ بندی کی جانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے چونکہ مختلف عہدوں میں اس عمل پر خطرات کے بادل منڈلاتے رہے ہیں یا منڈلاتے رہیں گے۔
ڈاکٹر شجاعی زند نے دین کی اقسام کے متعلق صراحتا بیان کیا کہ: تمام مذاہب کی مختلف معیار پردرجہ بندی کی گئی ہے وہ چیز جو سیکولر ہونے میں اہمیت کی حامل ہے ان کا دنیاوی اور سماجی ہونا ہے۔
انہوں نے معاشرے اور مذہب کے درمیان کنکشن اور رابطہ کی احتمالی صورت کی اس طرح توضیح دی۔ فرضی صورت، جو غالبا عالی ہے۔ جس میں دین کی بنیاد پر کسی بھی طرح کا تعلق انسان کی انفرادی اور معاشرتی زندگی پر کوئی اثر نہی رکھتا۔ اور اس عقیدہ میں کسی بھی طرح کا اثر نمایا نہی ہوا جو معاشرے کے تمایلات اور افعال میں مشاہدہ کیا جا سکے۔ وہ چاہے تمایلات اور افعال و کردار کسی ایک معاشرے کی فرد کی ہو یا ایک گروپ کی۔ اس طرح کا معاشرا غیرے دینی اور نادر معاشرہ ہے اور ممکن ہے بعض معاشرے اس کے مصداق قرار پائیں۔
وہ قسم جو رائج ہے جس میں انسان ایمان اور دین کا پابند ہوتا ہے، اور وہ اس معاشرے کو ایک خاص اور ممتاز شکل عطا کردیتا ہے اور اس معاشرے کے اندر رہ کر اس کی ساخت و ساز کو کافی حد تک متغیر کر دیتا ہے۔
اور دینی سماج اور معاشرے کی تیسری قسم نسبت کے اعتبار سے نزدیک ہو نا ہے جو دین کے ذریعہ کے برقرار ہوتی ہے اس طرح کا معاشرہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو ایسے مومنین سے تشکیل پاتا ہےجو دین کے آیین کے پائبند ہیں۔
ڈاکٹر شجاعی زند نے اضافہ کیا کہ: دینی معاشروں کی ناتوانی اور قوت کا تعلق ایسے مہم کام انجام دینا ہے جو تاثیر گزار ہوںاور وہ عرف عام میں نمونہ قرار پائیں۔ اور سیکولر ہونا ایک ایسا عمل ہے جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ دین عرف عام کو تسخیر کرلے اور دین کو قدم با قدم اور منزل با منزل معاشرے کے کنارے اور انسان کے اندر معنوی روح پھونک دے اور عبادت گاہوں کے خالی پن کو ختم کردے۔ دین کے جاری ہونے کی اصلی ترین جگہ معاشرہ ہے۔
انہو نے اس بات کی بھی تشریح کی کہ مطالعات اور تجربات بتاتے ہیں کہ مختلف معاشروں کا سیکولر ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کے اس عمل نے مختلف نمونوں کی اطاعت کی ہے۔
ڈاکٹر شجاعی زند نے کسی اثر کے قبول کرنے یا بغیر دخل و تصرف کی زندگی کی روشوں کا ذکر کیا ہے اور معاشرتی زندگی کے لئے پیشرفت و ترقی یافتہ کچھ سیکولر معاشروں کو، نمونہ کے طورپر ذکر کیا اور انہوں نے کہا: کہ یہ ایک بہترین راہ ہے دینی معاشروں کے سیکولر ہونے کی۔ اور دینی معاشروں کے سیکولر ہونے کےیہ معیار ہیں۔ اور ان معیاروں کی بنیاد ان تعریفوں پر ہے جو دوسرے مذاہب کی جانب سے پیش کی گئی ہیں اور بالخصوص دین اسلام کے مطابق ہیں۔اور دین اسلام ہدف کے اعتبار سے کسی بھی معاشرے کے تین جنبوں سے دست بردار نہی رہے گا اور وہ تین جنبہ یہ ہیں۔
۱۔ ہدف کا معین کرنا۔
۲۔ صحیح راستہ کا تعین کرنا۔
۳۔ اور کام کے انجام دیتے وقت کچھ شرط و شروط کا موجود ہونا۔
اور دین اسلام کے پاس خود اپنے اصول ہیں جن میں سےبہت زیادہ اصول ایسے ہیں جن کا کوئی نظیر نہی ہے اور ان کے بہترین آثار و نتائج بھی موجود ہیں۔
ان کے بعد حجّت الاسلام و المسلمین محمد رضا کاشفی نے اپنے مقالہ کی قرائت کی جس کا عنوان تھا ((فرھنگ نسبیت یا یگانگی)) یعنی ثقافت نسبی ہے یا تنہا کوئی ایک شیء ہے، محقّق محترم نے ثقافت کے نسبی یا تنہائیی پسند ہونے پر ایک بہت مہم بحث(دین و ثقافت) کے حوالے سے انجام دی۔ انہوں نے کہا کہ: وہ دین کہ جسکا دعوی ہے کہ وہ دنیا کے لۓ آیا ہے اس کو ایک ایسی ثقافت کا تعارف کروانا ہے کہ جو پورے کرّۂ ارض پر پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہو اور تمام انسانوں، نسلوں، قوموں اور حکومتوں اور تمام آداب و رسوم کو ایک ثقافت کی دعوت دے۔
حجّت الاسلام کاشفی نے خصوصا ثقافت کی تعریف کے متعلق کہا کہ: ہماری راۓ کے مطابق ثقافت انسانوں کو حیوانوں سے جدا کرتی ہے اور ثقافت کی شناخت کے لۓ انسان کے ہدف کا جاننا ضروری ہے اور اس کیطبیعت اور ماوراۓ طبیعت کی ضرورتوں میں سے ایک ضرورت انسان کا اپنا اور دوسروں کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔دوسرے الفاظ میں ثقافتی شالودہ انسان کا اپنے متعلق نظریہ اور اپنے اطراف اور یہ خاکی دنیااور وہ اقدار عقائد پر مبتنی ہو تب جاکر وہ اپنے کردار کو صحیح شکل دیتی ہے۔
ثقافت تین نظام سے وابستہ ہے یعنی نظام شناخت اورعقیدہ، نظام اقدار اور تمایلات، و نظام افعال و کردار، یہ ثقافت کو متشکل کرنے کے اجزاء ہیں اور دین اور ثقافت کے درمیان تنگا تنگی کا رشتہ ہے اس لۓ کہ یہ دونوں انسان کو عطا کۓ گۓ ہیں اور انسان اسی کے باعث مشکلات کو دور کرنے کی درپے میں ہیں وہ چاہے مشکلات طبیعت ہوں یا ماوراۓ طبیعت اپنے ہی وجہ سے ہوں یا غیروں کی بنیاد پر۔
حجّت الاسلام کاشفی نے ثقافتِ نسبی کے متعلق کہا کہ: ثقافت نسبی ہم سے کہہ رہی ہے کہ مسائل کو ایک کلّی معیار کے تحت اچّھا یا برا کہنا صحیح نہی ہے بلکہ پہلے والوں کے نظریوں کو معلوم کرنا ہوگا اور جس زمینے میں وہ ظاہر ہوں انکی جانچ پڑتال کی جاۓ اس لۓ کہ ممکن ہے جو چیز ایک معاشرے میں طحیح ہو وہ دوسرے معاشرے میں غلط ہو انہوں نے صراحتا بیان کیا کہ: نسبی ثقافت، ثقافتوں کے بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے مختلف ہیں اس لۓ کہ ثقافتوں کی بابت میں جب بحث ہوگی تو ثقافتوں کے مختلف اور بہت زیادہ ہونے اور انکے واقعی اور خارجی ہونے پر بحثکی جائے گیاور اگر کوئی نسبی ثقافت کو ایکپسندیدہ ثقافت کی شکل میں قبول نہ کرے وہ اس بات کا ادّعا نہی کر سکتا کہ ثقافت بس ایک ہی ہے۔ چونکہ اس نظریہ کے نتیجہ میں لازم آتا ہے کہ یہ دین، اسی فرہنگ و ثقافت کے ڈھانجچہ میں ڈھال دیا جاۓ کہ جس میں وہ وجود میں آیا ہے اس محقّق نے سیاسی اور معاشرتی واقعات کو اور عیسائیت کی وسعترفتار، اور انسانی علوم میں نۓ نۓ نظریوں کی ایجادات اور انکے انتشار کو ثقافت نسبی کی دلیل قرار دیا اور اسکے اتباع میں ثقافت نسبی کو بیان کیا ثقافت نسبی کے رجحان کا ریشہ اصول فلسفہ میں سے ہے ممکن ہے ہم اسکو مختلف زاویوں سے پکاریں مثلا نسبی گرائی کا مفہوم یا عقائد کی نسبی گرای یا اقدار کی نسبی گرائی۔
انکے بعد استاد مرتضی رہبانی نے اپنے مقالے کو پیش کیا انکے مقالے کا عنوان تھا ((دین اور ثقافت کے معنی)) انہوں نے کہا: دین ایک جدّ و جہد اور فتح، و ظفر کے طریقوں کی تعلیم دیتا ہے اور ثقافت تاریخ کی بنیاد ہے تاریخ کی بڑی بڑی کامیابیاں ثقافت کی ہی مرھون منّت ہیں جن کو کسی ہدف کے متعلق مرتب کیا گیا ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ اگر ثقافت کے امور پورے ہوں تو کسی بھی کام کا انجام دینا آسان ہے استاد رہبانی نے مرادیں مانگنا، تصوّف، فال دیکھنا، تعبیر خواب بتانا، اپنے ارمانوں کو چاہنا اور معمول سے زیادہ چاہنا جو کبھی واقع نہی ہو سکتا اور فکر و نظر میں اعتدال نہ ہونا اور عقلانیت پر تکیہ و توجہ نہ کرناو۔۔۔۔۔۔۔ اور ایرانی ثقافت کے دوسری مثبت اور منفی صفات، ذکر کۓ اور آپ نے ایرانی ثقافت کی اس طرح تعریف کی، ثقافت انسان کی اس جد و جہد کا نتیجہ ہے جو انسان اندرونی اور بیرونی ماحول میں تاریخ کے طویل ارصہ میں انجام دیتا رہا ہے ثقافت معاشرے کی کامیابی یا ناکامی میں عظیم اہمیت کی حامل ہے۔
انہوں نے ثقافتی کیفیت کے متعلق تنقید کی اس زمانے میں ثقافت کے متعلق جو کام ہونے چاہیۓ تھے وہ انجام نہی دۓ گۓ اور کسی طرح کی مدد بھی نہی کی گئی اکر کسی طرح کی کوئی مدد بھی ہوتی ہے تو وہ اس قلیل مقدار میں ہوتی ہے کہ اس وقت کی ضرورت کے مطابق یکسوئی نہی رکھتی۔
استاد رہبانی نے اپنی تقریر کے آخر میں کہا: دین اس وقت تمام امّیدوں کو پورا کر سکتا ہے جب دین داروں کو قانونی اور اصولی طور پر نفسیات اور سوشیالوجی کے علم سے پوری طری واقف کرایا جاۓ لہذا متولیان دین کے لۓ ضروری ہے کہ وہ تبدیلیوں کو قبول کریں اور اپنے کام کوچستی کے ساتھ انجام دیں نہ کہ بیکار ہوکر بیٹھ جائیں۔ اور اس طرح پورے سماج کو متحول کر دیں۔ اس شرط کے ساتھ کہ جب انہیں کسی ثقافت سے مقابلے کے لۓ ایک برنامہ دیا جاۓ تو اسکی روش اور اسکی صحت پر کامل اطمینان حاصل کریں ۔
انکے بعدکانفرنس کی تقریر ڈاکٹر محمد اسماعیلی سنگری نے کی انہوں نے اپنی تقریر میں اپنے مقالے کو پیش کیا جسکا موضوع تھا (( ادب اور اسلام کی، ثقافت کے درمیان تعلقات)) انہوں نے اس مقالے میں عباسیوں کے دور کا ذکر کیا اور کہا: بنی امیّہ کی حکومت نے شام میں سقوط کیا۔ اور خلافت، عباسی کے فرزند رسول اللّہ کی حچا نے حاصل کر لی۔ عبّاسی حکومت کی بنیاد رکھنے والا ابولعباس سفاح تھا، سفاح نے بنی امیہ کے سرداروں کو قتل کر دیا اور عوام کے ایک شہر (الانبار) کو اپنی خلافت کا پایہ تخت بنایا اور اسکے بعد اسکا بھائی ابوالجعفر منصور اسکی کرسی پر بیٹھا اور اسنے بغداد شہر کی بنیاد رکھی اور تخت خلافت کو (الانبار) سے بغداد کی طرف منتقل کیا عباسی حکومت ایرانیوں کے کاندھوں پر استوار تھی اور انہی کی بدولت رواں دواں تھی ایرانیوں نے علویوں اور عباسیوں کی حمایت میں قیام کیا تھا اس انقلاب سے عربوں کی طاقت کم ہو گی اور ایرانیوں کی عزت و توقیر میں اضافہ ہو گیا یہاں تک کہ حکومت کے تمام ارکان میں ایرانیوں نے اثر و رسوخ پیدا کر لیا انہوں نے ایرانیوں کی تاثیر کو عباسی حکومت کے متعلق اور صراحت سے بیان کیا۔ لوگوں کی توقعات عربوں کی عادات اور انکی رسومات سے ایرانیوں کی طرف منتقل ہو گئیں اور اس طرح نئ زندگی کے شیوؤں نے پرانی رسم و آداب کی جگہ لے لی اور نۓ نۓ آداب و رسوم جو عجمی مذاہب میں پاۓ جاتے تھے عربوں نے انکو لینا شروع کر دیا اور یہ چیز انکے لۓ عادی ہو گئی۔
ڈاکٹر اسماعیل نے اس دور کے تشخص کے متعلق کہا: کہ یہ دور آزادی افکار اور عقائد کا دور ہے اور اسکی وجہ قوموں اور ملّتوں کا مختلف ہونا ہے چونکہ انمیں سے ہر قوم اپنے اپنے عقیدوں کی مالک ہے اسلامی تہذیب اور تمدّن عباسے دور میں اپنے منزل معراج پر پہنچ گیا تھا چونکہ ایران اسلامی کی ثقافت اسکا تقاضا کر رہی تھی انہوں نے اس دورمیں ایران کی ادبی، ثقافت اسلامی کی مناسبت سے کچھ مقامات کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا: دور عباسی میں اشعار پر جو فضا حاکم تھی وہ شعراء کے ذوق اور طبیعت کی وجہ سے تھی یہی وجہ ہے یہ ادبی دنیا کے اہتمام کی وجہ سے دو مکتب بغداد اور شام عربی ادب کے حوالے سے وجود میں آۓ کہ جنہیں حقیقت میں ثقافت کو ترقّی اور منزل معراج پر پہونچانے والے دو راستے کہنا چاہیۓ۔
ڈاکٹر اسماعیل نے تذکر دیا کہ جس چیز نے علم و ادب و ثقافت کو رونق عطا کی اور اس کو وسعت بخشی وہ عباسی خلفاء اور انکی حکومت کے عہدہ داروں کا شوق اور ان کو ترغیب دلانا تھا علماء،ادیب اور ترجمہ نگار، عباسی خلفاء کے دور میں بہترین زندگی بسر کر رہے تھے اسی وجہ سے علوم ثمر بخش ہو گۓ اور بہت سے یونان اور ہند کے آثار فلسفی، ثقافتی اور علم و حرص کی لالچ کے ماتحت ترجمہ کر دیۓ گۓ اور اس دور میں بہت سے تصانیف جو بہت اہمیت کی حامل تھیں منصۂ شہود پر آئیں۔
انکے بعد حضرت آیۃاللّہ رضا استادی (بورڑ آف ڈائرکٹر کے اراکین میں سے ایک رکن) نے اس کانفرنس میں تقریر کی اور انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار یہ کہکر کیا کہ دینی محقّقین کو دین کی مضبوطی کی غرض سے کام کرنا چاہیۓ آیۃاللّہ استادی نے مزید کہا کہ: دینی تحقیق کی خامیوں میں سے ایک خامی یہ ہے کہ ایک دین دارانسان یہ سوچتا ہے کہ وہ غیر دین دار کی طرح دین اور قرآنی امور میں تحقیق کرے اگر کوئی شخص اسطرح کرتا ہے تو گویا اسنے بد دیانتی کا ثبوت دیا ہے، اس لۓ کہ اسنے یہ تحقیق اپنی دیانت کے خلاف کی ہے لہذا متدیّن محقّقین کو چاہئیۓ کہ وہ اپنے آپ کو غیر متدیّن افراد سے الگ کریں ۔
حوزۂ علمیہ قم جامع مدرسین کے رکن نے صراحتا بیان کیا کہ: متدیّن اور غیر متدیّن کے نتائج کو پیش کرتے وقت بھی اس چیز کا خیال رکھنا چاہۓ کہ ان دونوں کی دیکھ بھال پرایسے ہی افراد کو معپن کر دینا چاہیۓ تاکہ متدیّنین کی تحقیق کے نتیجہ میں دین کو تقویت اور فروغ حاصل ہو چونکہ ممکن ہے ایک متدیّن شخص ایک ایسے مطلب کو اپنی تحقیق میں بیان کرے جس کے ذریعہ دین پر تو ضرب نہیی لگائی گئی ہو مگر متدیّن لوگوں کی دین داری میں تاثیر انداز ہو اور انکی دیانت پر بہت زیادہ خسارت وارد کر سکتی ہو ایسی صورت میں متمدّن افراد اپنی طرف سے مطالب کو بیان کرنے سے باز آئیں اور یہی انکی دیانت کا تقاضا ہے۔
آیۃاللّہ استادی نے آخر میں مزید فرمایا: اگر یہ کہا جاۓ کہ اسلام میں گمراہ کرنے والی کتابیں منتشر نہ ہوں تو یہ کہنا معقول ہے مگر اسکا یہ مطلب ہرگز نہی ہے کہ دینی محقیق کو آزادی کے ساتھ تحقیق انجام دینے سے روکا جاۓ۔
ان کے بعد ڈاکٹر محمد تقی فعالی نے اپنے مقالے کو پیش کیا انکے مقالے کا موضوع تھا(( ایرانی ثقافت میں عرفان اسلامی کا کردار)) اس بیان کے ساتھ کہ تصوّف یا عرفان کا ایک پہلو تمرین یا پریکٹس کا ہے انہوں نے کہا: ہمیں صرف عرفان نظری کی توثیق اور اعتبار پر قانع نہی ہونا چاہیۓ بلکہ اسکے ساتھ ساتھ ہمیشہ ضروری ہے کہ صوفیوں کی انفرادی، نفسیاتی اور معاشرتی کردار کی بھی مو شگافی کرنا چاہیۓ جس کے نتیجہ میں ایک آخری معیار حاصل ہو حاۓ عرفان اور تصوّف کی اہمیت معلوم کرنے کے لۓ انہوں نے اس بات کا بھی اضافہ کیا کہ بہت سے اصلی عناصر ہیں مثلا انسانیت کا احترام، تمثیل کی روش، اور خوبصورتی اور آزاد رہنا، علم و صفا اور ظاہر پر توجہ نہ کرنا، بد نام لوگوں کی صحبت میں نہ بیٹھنا، جمع آوری کرنے کی دعوت دینا، موت کی طرف توجہ نہ کرنا، علاج کی اہمیت وغیرہ اور ادبیات میں تحوّل، یہ سب ایرانی ثقافت میں موجود ہیں اور یہ تصوّف اور عرفان سے متاثر ہوکر ایسا ہو گیا ہے ڈاکٹر فعالی نے وضاحت کی ہمیں یہ دعوی نہی کرنا چاہیۓ کہ عرفان نے منفی اثرات نہی چھوڑے ہیں اور صوفیوں کی جماعت اصل راستے سے منحرف اور گناہوں میں ملوّس نہی ہوئی ہے بلکہ عرفان کی تاریخ عملی عقیدہ کے انحراف سے بھری ہوئی ہے عارفوں اور صوفیوں نے صرف ایران ہی میں اپنے اثرات نہی چھوڑے بلکہ صوفیوں کی جذب کرنے کی قوت اتنی زیادہ ہے کہ جس نے اسلامی اور دوسری سرزمینوں کو بھی متاثو کر دیا ہے صوفی گری کا یہ انقلاب دوسری صدی ہجری سے شروع ہوا اور نوی صدی تک چلتا رہا اسنے صرف ایران کی ہی سرزمین کو اپنی لپیٹ میں نہی لیا اور زیادہ مثبت اثرات ہی نہی چھوڑے بلکہ دوسرے مناطق کو بھی اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس طرح سے ایران کاثقافتی عرفان عالمگیر ہو گيا اور تہذیب و تمدّن اور ثقافتوں کو ایک دوسرے سے قریب ہونے کے لۓ بہترین فضا ہموار ہو گئی۔
اس کانفرانس میں ڈاکٹر فعالی کے بعد محترمہ معصومہ تکلّو نے بھی تقریر کے فرائض انجام دۓ انہوں نے تقریر کے ذریعہ اپنے مقالہ کو پیش کیا انکے مقالے کا عنوان تھا ایرانی ثقافت کے ساتھ شیعت کی مناسبتیں۔ انہوں نے لفظ شیعہ کے مفہوم کی اس طرح وضاحت کی لفظ شیعہ لغت کے اعتبار سے پیرو اور طرفدار کے معنی میں استعمال ہوا لیکن اصطلاحی نکتۂ نظر سے شیعہ کے معنی ہیں علی علیہ السلام اور آپ کے اہل بیت(ع) سے محبت کرنے والا۔
انہوں نے ایران میں شیعت کی پیدائش کے متعلق کہا: عموی خلفاء اور حکماء کے ظلم و ستم غیر عرب پر جس قدر بھی زیادہ ہوتے تھے اور وہ جتنا بھی سوچتے تھے کہ ان کے قبائل اور انکی عربیت غیر عرب اور دیگر قبیلوں پر برتری رکھتی ہے اتنا ہی انکی اس فکر کے بجاۓ لوگوں کے ذہن میں اسلام محمدی نفوذ کرتا جاتا تھا جونکہ جتنا حتنا وہ لوگ اپنے آپ کو سماجی حقوق سے محروم پاتے اتنے ہی ان لوگوں کا رجحان اولاد پیامبر کی طرف زیادہ ہو جاتےکیونکہ آپ ہی اسلام کے سچّے مددگار تھے۔
محترمہتکلو نے بیان کیا کہ: ایران میں دریاۓ خزر کے کنارے شیعوں کی سب سے پہلی حکرمت تشکیل پائی انہوں نے صراحتا بیان کیا کہ تیسری صدی ھجری میں طبرستان کے شیعرں نے اپنی حکومت کو شہر ری تک وسعت دی اور ایک قرن تک خلفاۓ عباسی اور انکے سپاہیوں کی مخالفت میں کھڑے رہے اور بغیر کسی شک و شبہہ کے چونکہ علویوں کا اثر و رسوخ وہاں کے لوگوں میں بہت زیادہ ہو چکا تھا لہذا انہوں نے شیعہ مذہب کی فروغ میں بہترین کار کردگی کا مظاہرہ کیا طبرستان کے علویوں کے بعد آل بویہ جو گیلان کے محروم اور ماہی گیر طبقہ سے تعلق رکھتے تھےانہوں نے قیام کیا اور انہوں نے اپنی قدرت کو صرف ایران کے شمالی علاقہ( کہ جو آج ایران کے غرب اور جنوب کا حصہ ہے) میں ہی محدود نہی کی بلکہ خلفاۓ عباسی کے مرکز میں یعنی بغداد میں بھی اپنی قوت کا اظہار کیا اور خلفاۓ عباسی کو خلافت سے برکنار کرنے میں نمایاں کام انجام دۓ۔
انہوں نے ایرانی مسلمانوں سے تفرقہ اور تشتت کے دور کرنے کو اسلام اور شعیوں کی خدمت جانا ہے اور اسلام اور شیعت کی خدمت کے متعلق فرمایا کہ: ایرانیوں نے کھلے دل سے اسلام کو قبول کیا اور پھر اس کی اشاعتکے لۓ بھی کسی بھی قربانی دینے سے گریز نہی کیا۔
محترمہ تکلو نے علم و ثقافت کے صحنہ کو اسلام اور شیعوں کی خدمت کا سب سے زیادہ پر ہیجان میدان تسلیم کیا اور ایرانیوں کو بعض چیزوں میں شیعت کا آئیڈیل تسلیم کیا ہے جیسا کہ: مسالمت، تعاون اور انقلابی ہونا غیرہ از جملہ شیعت کی کلی سیاسی ثقافت کو ایرانیوں کی خدمت کا نتیجہ مانا ہے۔ (اور امام خمینی کے انقلاب کی تفسیر شیعہ ثقافت کا سبب ہے شیعت کی سیاسی نظر میں جو انقلاب گری کا باعث ہوا) اسکے متعلق محترمہ تکلو نے کہا:
یہ انقلاب دو علتوں کی وجہ سے رونما ہوا اسکی ایک تو وجہ یہ تھی کہ امام خمینی نے بعض مفاھیم کی تفسیر کی اور بعض مفاھیم کو ایجاد کیا حیسا کہ: انتظار، تقیہ اور شہادت۔ ان مفاھیم کے ذریعہ سے لوگوں کے اندر ایک فکر پھونکی اور ان کی ذہن میںانقلاب بر پا کیا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ آپ ایک بہترین موقیعت سے ہم کنار تھے یعنی دینی مرجیعت،یہ سبب ہوئی کہ انکے کام قانونی ہوں اور یہ کام مذہبی دانشوروں کی جانب سے انجام دئے گئے تھے۔
محترمہ تکلو نے مزید فرمایا کہ: یہ تمام موارد جن کو اوپر ذکر کیا جا چکا ہے انقلابی بنانے کا ماڈل ہیں یہ تمام عوامل باعث ہوۓ کہ شیعت کی سیاسی ثقافت کو غلبہ حاصل ہو اور شیعہ ثقافت سے اس نظریہ کو اخذ کرنے کی وجہ سے 1340 سےلیکر 1350 تک کے لوگ انقلابی بن جائیں۔
محترمہ تکلو نے راہبری کو کچھ خاص ناموں اورالفاظوں سے یاد کیا مثلاقائد کو مذہب کی نماد اور انقلاب کا کلچر اور انقلاب کی ٹیکنیک وغیرہ۔ اور انفلاب کے زمانہ میں لگاۓ جانے والے نعروں کو شیعی ثقافت کے سیاسی، اور لوگوں کے انقلابی ہونے کا معیار قرار دیا اور آخر میں وضاحت کی کہ ثقافت شیعی انسان کہبلند و بالا اقدار اور مفاھیم کی مالک ہے اور ہر قسم کے جمود اور خرافات اور بے جا دشمنی، اور ہمیشہ دنیا میں انقلاب آزادی کی منادی ہے اور یہ آخر میں اپنے وارث حقیقی تک پہنچیےگی اور منجی بشریت کے ظہور کے ساتھ مظلومیت کو استحصان اور ظلم سے نجات ملےگی اور منجی بشریت اس جہاں پر اپنی حاکمیت کا پرچم بلند کریں گے۔
اس کانفرنس کے آخر میں ڈاکٹر جلیل مسعودی فر نے اپنے مقالے کو قرائت کیا: انکے مقالے کا عنوان تھا : (( دین کے لۓ چنوتیاں اور ثقافت)) انہوں نے ثقافت کی تعریف اس طرح کی: ثفافت، زندگی کا ایک مشترک راستہ ہے اور یا انسان کا اپنا نظریہ اور عمل ہے کہ جو آرٹ، ادب، علم، فلسفہ، دین اور تخلیق انسان کو شامل ہوتا ہے۔ اور دین کے معنی یعنی انسان کے وہ تمام عقائد ہیں جو اسکے مبداء وجودی سے تعلق رکھتے ہیں اور انسان کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ملزم کرےعقائد کو ان کے مقتضیات کے ساتھ بجالانے کا۔انہوں نے مزید فرمایا: دین مختلف سماجوں میں محتلف ثقافتوں کے ساتھ تبادلہ کا کام انجام دیتا ہے اور ایک دوسرے پر اثر گذاریکا باعث ہوتا ہے تاکہ انسان کا ارتقاء ہو سکے اور یہ ایک دوسرے پر مؤثر ہونا مختلف دہمکیوں اور چیلنجوں کو ایجاد کرتا ہے۔
ڈاکٹر مسعودی فر نے دین اور سیاست سے، عقلانیت اور علمی رجحان، انسانی حقوق، آزادی، جمہوریت، انصاف، قانون کی حاکمیت، اور اخلاقی زوال حیسے مباحث کو دین اور ثقافت غرب کے درمیان چیلنج سے تعبیر کیا ہے۔ اور انسانی حقوق کو اس زمانے میں انسان کی زندگی کی بہترین کامیابیوں میں سے شمار کیا۔
دین کی روایتی تشریح حقوق انسانی کے ساتھ سنگین چیلنج رکھتی ہے: ایک طرف انسان کے بنیادی حقوق کو دین کے نام پر پائمال کیا جا رہا ہے جو بہت زیادہ خطرناک ہے لہذا مجبورا ایک نئی تشریح کی جاۓ جس میں انسانی حقوق اور دین کے اندر باہمی تفاوق اور تفاہم ہو، انسانی حقوق اس وقت معنی دار ہونگے جب انسان کا رابطہ انسان کے ساتھ ہو اس وقت انسانی حقوق کے کوئی حد معین نہی رہ جاتے جب انسان کا رابطہ خدا کے ساتھ ہو، حقوق انسانی کا مطب دین کے علاوہ ہے مگر دین کی ضد نہی ہے اور یہ غیر دینی کا مطب ہرگز یہ نہی ہے کہ مراجع اکرام اور دینی مراکز، انسان کی ہدیت اور تفہیم کو جہت دینے کے لۓ بالکل انکی مدد نہ کریں۔
ڈاکٹر مسعودی فر نے جمہوریت اور دین کے متعلق فرمایا: جمہوریت لوگوں کے لۓ بہترین روش ہے کہ وہ مشارکت اور حاکمیت کے لۓ اپنی تقدیر اپنے ہاتھ سے لکھیں اور حکومت کی تمام شیوؤں کی با نسبت خطرات بہت کم ہیں اور مسلمان مجبور ہیں کہ وہ اس طرح کے شیوؤں کو قبول کریں اور انکے نتائج اور لوازم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس دور کے ثقافتی قافلے سے پیچھے رہ جاینگے اہنوں نے جرائم کا زیادہ ہونا، اسیگلنگ، نشہ کرنا، دھوکہ دھڑی، فریب، رشوت خوری، طلاق لڑکیوں کا بھاگ جانا، نکما پن اور جسم فروشی کو معاشرے میں بدخلاقی اور زوال کا نتیجہ قرار دیا اور صراحتا کہا:علماء اور دینی تنظیموں کو اس اخلاقی بحران سے نمٹنے کے لۓ اقدام کرنا چاہۓ اور اسکا مقابلہ تنہا اخلاق عملی کے ذریعہ سے ممکن ہے۔
انہوں نے آخر میں متنبہکیا: کہ اس زمانے میں ہمارے لۓ ضروری ہے کہ ہم عقلانیت اور معنویت کو ایک جگہ جمع کریں انسانی معاشرہ اور ثقافت غربی، دنیا کی با نسبت معنوی تفسیر کی اشد محتاج ہیں اور اس بات کے محتاج ہیں کہ دین کے ذریعہ انہیںاخلاق کی صحیح تفسیر پیش کر سکیں دین کی عقلانیت کے ساتھ تشریح، کہ جو ان الفاظ پر تکیہ کۓ ہوۓ ہے آزادی، جمہوریت، حقوق انسانی اور عدالت اس زمانے میں صرف دین کے ذریعہ قابل حل ہے یہ دین اور ثقافت کی تلفیق اور ہم آہنگی، انسان کو منزل معراج تک پہنچانے میں بہترین اٹھایا ہوا قدم ہے قابل ذکر ہے کہ (مذہب اور ثقافت کے ایرانی معاشرے میں تعلقات) کے عنوان سے ایک کتاب چھاپ کی گئی کہ یہ کتاب دینی محقّقین کی تیسری کانفرانس میں چنندہ مقالات پر مشتمل ہے یہ کتاب دو جلدوں میں 500 صفحوں پر چاپ کی گئی ہے جو ملک کے دینی محقّقین کے سکریٹری دفتر کے انتشارات سے چاپ ہوئی ہے اوراس کانفرنس میں موجود تھی اور تمام شرکت کرنے والوں کی خدمت میں پیش کی گئی اور اس کانفرانس میں حاضرین نے ملک کے دینی محقّقین کے سکریٹری کی کارکردگی کے متعلق رضایت کا اظہار کیا اور آنے والے سالوں میں بھی اس طرح کے اجلاس کے برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا۔
منبع : دبیرخانه شورای دین پژوهان کشور